شوخ رُخ پر حیا جھلملانے لگی
زِندگی گیت خوشیوں کے گانے لگی
کورے کاغذ پہ لکھا جو نام آپ کا
کاغذی پھول سے خوشبو آنے لگی
عرش والوں نے چھوڑی کوئی پھلجھڑی
یا وُہ غنچہ دَہَن مسکرانے لگی
زُلف کا پھول اُس نے مجھے دے دِیا
عمر بھر کی اُداسی ٹھکانے لگی
میں تو ہم شہر ہونے پہ بے چین تھا
کل سے وُہ گھر میں بھی آنے جانے لگی
پھول توڑے بنا اُس پہ لب رَکھ دِئیے
چاہنے کا قرینہ سکھانے لگی
چاند کے منہ پہ اُن کو کرایا جو قیسؔ
چاندنی اُن سے ’’ شہ مات ‘‘ کھانے لگی
شہزاد قیس