زَر پرستی حیات ہو جائے
اِس سے بہتر وَفات ہو جائے
پھر میں دُنیا میں گھوم سکتا ہوں
جسم سے گر نجات ہو جائے
محورِ عشق سے ذِرا سا ہٹے
مُنتَشِر کائنات ہو جائے
جھیل آنکھوں میں ڈُوبنے نکلوں
نیم رَستے میں رات ہو جائے
عشق جو شرط کے بغیر کرے
ساقی ء شَش جِہات ہو جائے
آنکھ پڑھنا جسے بھی آ جائے
ماہرِ نفسیات ہو جائے
عکسِ لیلیٰ سے قیسؔ بات تو کر !
عین ممکن ہے ، بات ہو جائے
شہزاد قیس