ردیف قافیہ بندش خیال لفظ گری


ردیف قافیہ بندش خیال لفظ گری
وہ حور زینہ اترتے ہوئے سکھانے لگی

کتاب باب غزل شعر بیت لفظ حروف
خفیف رقص سے دل پر ابھارے مست پری
کلام عروض تغزل خیال ذوق جمال
بدن کے جام نے الفاظ کی صراحی بھری

سلیس شستہ مرصع نفیس نرم رواں
دبا کے دانتوں میں آنچل غزل اٹھائی گئی

قصیدہ شعر مسدس رباعی نظم غزل
مہکتے ہونٹوں کی تفسیر ہے بھلی سے بھلی

مجاز قید معمہ شبیہ استقبال
کسی سے آنکھ ملانے میں ادبیات پڑھی

قرینہ سرقہ اشارہ کنایہ رمز سوال
حیا سے جھکتی نگاہوں میں جھانکتے تھے سبھی

بیان علم معانی فصاحت علم بلاغ
بیان کر نہیں سکتے کسی کی ایک ہنسی

قیاس قید تناسب شبیہ سجع نظیر
کلی کو چوما تو جیسے کلی کلی سے ملی

ترنم عرض مکرر سنائیے ارشاد
کسی نے سنیے کہا بزم جھوم جھوم گئی

حضور قبلہ جناب آپ دیکھیے صاحب
کسی کی شان میں گویا لغت بنائی گئی

حریر اطلس و کمخواب پنکھڑی ریشم
کسی کے پھول سے تلووں سے شاہ مات سبھی

گلاب عنبر و ریحان موتیا لوبان
کسی کی زلف معطر میں سب کی خوشبو ملی

کسی کے مرمریں آئینے میں نمایاں ہیں
گھٹا بہار دھنک چاند پھول دیپ کلی

کسی کا غمزہ شرابوں سے چور قوس‌ قزح
ادا غرور جوانی سرور عشوہ گری

کسی کے شیریں لبوں سے ادھار لیتے ہیں
مٹھاس شہد رطب چینی قند مصری ڈلی

کسی کے نور کو چندھیا کے دیکھیں حیرت سے
چراغ جگنو شرر آفتاب پھول جھڑی

کسی کو چلتا ہوا دیکھ لیں تو چلتے بنیں
غزال مورنی موجیں نجوم ابر گھڑی

کسی کی مدھ بھری آنکھوں کے آگے کچھ بھی نہیں
تھکن شراب دوا غم خمار نیم شبی

کسی کے ساتھ نہاتے ہیں تیز بارش میں
لباس گجرے افق آنکھ زلف ہونٹ ہنسی

کسی کا بھیگا بدن گل کھلاتا ہے اکثر
گلاب رانی کنول یاسمین چمپا کلی

بہ شرط فال کسی خال پر میں واروں گا
چمن پہاڑ دمن دشت جھیل خشکی تری

یہ جام چھلکا کہ آنچل بہار کا ڈھلکا
شریر شوشہ شرارہ شباب شر شوخی

کسی کی ترش‌ روئی کا سبب یہی تو نہیں
اچار لیموں انار آم ٹاٹری املی

کسی کے حسن کو بن مانگے باج دیتے ہیں
وزیر میر سپاہی فقیہ ذوق شہی

نگاہیں چار ہوئیں وقت ہوش کھو بیٹھا
صدی دہائی برس ماہ روز آج ابھی

وہ غنچہ یکجا ہے چونکہ ورائے فکر و خیال
پلک نہ جھپکیں تو دکھلاؤں پتی پتی ابھی

سیاہ زلف گھٹا جال جادو جنگ جلال
فسوں شباب شکارن شراب رات گھنی

جبین چراغ مقدر کشادہ دھوپ سحر
غرور قہر تعجب کمال نور بھری

ظریف ابرو غضب غمزہ غصہ غور غزل
گھمنڈ قوس قضا عشق طنز نیم سخی

پلک فسانہ شرارت حجاب تیر دعا
تمنا نیند اشارہ خمار سخت تھکی

نظر غزال محبت نقاب جھیل اجل
سرور عشق تقدس فریب امر و نہی

نفیس ناک نزاکت صراط عدل بہار
جمیل ستواں معطر لطیف خوشبو رچی

گلابی گال شفق سیب سرخی غازہ کنول
طلسم چاہ بھنور ناز شرم نرم گری

دو لب عقیق گہر پنکھڑی شراب کہن
لذیذ نرم ملائم شریر بھیگی کلی

نشیلی ٹھوڑی تبسم ترازو چاہ ذقن
خمیدہ خنداں خجستہ خمار پتلی گلی

گلا صراحی نوا گیت سوز آہ اثر
ترنگ چیخ ترنم ترانہ سر کی لڑی

ہتھیلی ریشمی نازک ملائی نرم لطیف
حسین مرمریں صندل سفید دودھ دھلی

کمر خیال مٹکتی کلی لچکتا شباب
کمان ٹوٹتی انگڑائی حشر جان کنی

پری کے پاؤں گلابی گداز رقص پرست
تڑپتی مچھلیاں محراب لب تھرکتی کلی

جناب دیکھا سراپا گلاب مرمر کا
ابھی یہ شعر تھے شعروں میں چاند اترا کبھی

غزل حضور بس اپنے تلک ہی رکھیے گا
وہ روٹھ جائے گا مجھ سے جو اس کی دھوم مچی

جھکا کے نظریں کوئی بولا التماس دعا
اٹھا کے ہاتھ وہ خیرات حسن دینے لگی

کشش سے حسن کی چندا میں اٹھے مد و جزر
کسی کو سانس چڑھا سب کی سانس پھول گئی

جو اس پہ بوند گری ابر کپکپا اٹھا
اس ایک لمحے میں کافی گھروں پہ بجلی گری

قیامت آ گئی خوشبو کی کلیاں چیخ پڑیں
گلاب بولا نہیں غالباً وہ زلف کھلی

طواف کرتی ہے معصومیت یوں کمسن کا
کہ قتل کر دے عدالت میں بھی تو صاف بری

بدن پہ حاشیہ لکھنا نگاہ پر تفسیر
مقلدین ہیں شوخی کے اپنی شیخ کئی

تمام شہر میں سینہ بہ سینہ پھیل گئی
کسی کے بھیگے لبوں سے وبائے تشنہ لبی

گلاب اور ایسا کہ تنہا بہار لے آئے
بہشت میں بھی ہے گنجان شوخ گل کی گلی

کمال‌ لیلیٰ تو دیکھو کہ صرف نام لیا
”پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی”

گلابی آنکھوں میں ایسے بھنور تھے مستی کے
شراب ڈوب کے ان میں بہت حلال لگی

جسارت عکس پہ لب رکھنے کی نہیں کرتے
بہت ہوا بھی تو پلکوں سے گدگدی کر دی

نہ جانے پہلی نظر کیوں حلال ہوتی ہے
کسی کے حسن پہ پہلی نظر ہی مہنگی پڑی

چمن میں ”پھول نہ توڑیں” لکھا تھا سو ہم نے
گلاب زادی کو پہنا دی تتلیوں کی لڑی

کسی کا زلف کو لہرا کے چلنا اف توبہ
شراب ناب ازل کے نشے میں مست پری

وہ بولتا ہے تو کانوں میں شہد گھولتا ہے
مریض قند پہ قدغن ہے اس کو سننے کی

کلی کو چھوڑ کے نقش قدم پہ بیٹھ گئی
قلم ہلائے بنا تتلی نے غزل کہہ دی

صنم اور ایسا کہ بت اس کے آگے جھک جائیں
دعا دی اس نے تو دو دیویوں کی گود بھری

عطائے حسن تھی قیسؔ اک جھلک میں شوخ غزل
کتاب لکھتا میں اس پر مگر وہ پھر نہ ملی
شہزاد قیس