**************************************** ((Notice)) Updated On: 7/19/2019 2:03:45 AM Release Date: 8/13/2017 2:40:04 PM **************************************** **************************************** ((Begin Text)) **************************************** **************************************** شہزادقیس کی جانب سے خوش آمدید **************************************** شہزادقیس کی جانب سے خوش آمدید مجموعہ کلام "شاعر" میں شامل اشعار **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** اِنتساب **************************************** اِنتساب آخری شاعر کے نام **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** ناسٹیلجیا: خوشا وُہ دور کہ سُولی پہ ٹانک دیتے تھے **************************************** ناسٹیلجیا: خوشا وُہ دور کہ سُولی پہ ٹانک دیتے تھے اَب اِہلِ فکر کو جوتی پہ بھی نہیں لکھتے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** عرضِ قیس **************************************** عرضِ قیس بشنو از نی چون حکایت می کند از جدائی ہا شکایت می کند کز نیستاں تا مرا ببریدہ اند در نفیرم مرد و زن نالیدہ اند (مولانا رومؒ) خلا کی حکومت بات اس وقت کی ہے جب صرف عدم وجود رکھتا تھا۔ ہر سُو، یکسوئی کا راج تھا۔ دور و نزدیک یکساں تھے۔ گھپ اندھیرے نے اپنا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ سوائے تغیر کے ہر چیز کو ثبات تھا۔ وقت اتنا ساکن تھا کہ ماضی، حال، مستقبل بیک وقت ایک ہی نیام میں مل جل کر رہتے تھے۔ ترکشِ مرگ خالی تھا تو حیات بھی تہی دامن تھی۔ عناصرِ اربعہ کا وجود تو درکنار ان کے نمائندہ الفاظ بھی کسی آئندہ سوچ کے گداگر تھے۔ بات اتنی قدیم ہے کہ لوح و قلم، عبد و معبود، حسن و عشق، روزو شب، شاہ و گدا، شیخ و رند، پھول اور تتلی ، تلاشِ معاش، یادِ یار اور شعر و شاعری تک وہم و گمان کی بھی رسائی نہ تھی۔ اور عاشقانِ شعر نے کہیں بعد داد وتحسین کی دہلیز پر پہلا قدم رنجہ فرمانا تھا۔ ندائے کن نہ جانے پھر کیا ہوا کہ اچانک اسی بے نوا کائنات کی بے انتہا گہرائیوں میں ازلی شعور کو شوقِ ظہور ہوا۔ ارادہ کرتے ہی دنیا کا سب سے پہلا لفظ’’کُن‘‘ ایجاد ہوا۔ اولین لفظ ہی اتنی خوبصورتی اور قدرت سے ادا ہوا کہ نشاط انگیز ’’واہ واہ‘‘ کا دائمی سلسلہ دما دم رفتار پکڑنے لگا ۔ ’’کن فیکون‘‘کی جلترنگ بجتے ہی دنیا کو سمت مل گئی۔ ’’لفظی رم جھم ‘‘ نے بنجر کہکشاؤں کو اچھوتے خیالات سے جل تھل کر دیا۔ بے انت دھاگوں کے تانے بانے نے گیسوئے یار کی طرح خم کھا کر ’’تشکیلی انگڑائی‘‘ لی اور عدم سے ’’تکمیلی جوڑے‘‘ وجود میں آنے لگے۔ عالمِ جمادات تخلیق میں ٹھہراؤ کے لیے جمودِ شعور لازم ٹھہرا تاکہ اجسام زمانی بہاؤ کے باوجود جامد بہروپئے بنے رہیں۔ اس ضرورت کے پیش نظر سب سے پہلے آب، آتش، باد اور خاک کے الفاظ تخلیق ہوئے اور اس دلچسپ مجموعے کا نام عالمِ جمادات تجویز ہوا۔ ایک عدم کی کوکھ سے جنم لینے والے جمادات نے حیرت انگیز طور پر نیرنگیٔ وجود کا اظہار شروع کر دیا۔ پہلی بارش ریت اور مٹی کے گرد باد کو دیکھ کر پانی کے من میں موجِ اڑان جاگی اور اس نے ہوا کی مدد سے فضا میں بلند ہوکر موج در موج گھٹاؤں کی فوج بن کر دھرتی کو ڈھانپ لیا۔ بادلوں کے گہرے گھپ اندھیرے میں اچانک ایک کڑاکے دار آواز اور برق رفتار چمک کے ساتھ روشنی نے اعلانِ وجود اور اندھیرے سے دائمی جنگ کا باضابطہ اعلان کیا۔ یہ دنیا کی پہلی بارش تھی۔ ’’کاش‘‘ تم ہوتے تو اس وقت کی ’’کچی ترین مٹی‘‘ پر ’’پہلی ترین بارش‘‘کی رُوح پرور خوشبو سونگھتے۔ بادلوں کے چھٹ جانے پرپوری دنیا محسنِ نور، خسروئے خاور کے نور سے مزین ہو گئی۔ کچھ دیر تک بزمِ رنگیں کماں کا انعقاد ہوا مگر جب کوئی ’’سبحان تیری قدرت‘‘ کہنے والی چشمِ مشتاق نظر نہ آئی تو چپ چاپ محفلِ دھنک سمیٹ دی گئی۔ خوشگوار اور دھلی ہوئی چمکدار دھوپ میں ریت، مٹی، سنگ، لعل، زمرد، عقیق، نیلم، یاقوت، ہیرا، جواہرات، سونا، چاندی، تانبہ، فولاد، برف، پانی، آگ، دھواں، کہسار، غار، بھنور، ساحل، آب، سراب، گھٹا، صحرا، چپ، صدا، رنگ، رمق، دمک بہت خوبصورت دکھائی دے رہے تھے۔ سب اشتیاق اور بے چینی سے کسی استفادہ گر کی راہ تکنے لگے۔ عالمِ جمادات اپنی اصل یعنی عدم سے ہمیشہ رابطے میں رہا۔ شایداسی لیے عدم اور وجود کے درمیان موج اور ذرے کا رقص چشمِ بینا کے لیے شگفت انگیز دلکشی کا باعث ہے۔ عالمِ نباتات نمودِ ظہور کے لیے پھلنے، پھولنے کی صلاحیت ضروری تھی چنانچہ پہلے رُوحِ تکثیر کی صورت میں ملفوظات نشوونما کو سبز خلعت عطا کی گئی۔ خلقت کے اس درجے کا نام عالم نباتات قرار پایا۔ نامرئی سنگ تراش کے کرشماتی فن کا معجزہ ظاہر ہونے لگا۔ شعور نے سبزے کی شکل میں نشوونما شروع کر دی۔ دھاتی ورق پتوں میں تبدیل ہوگئے۔ سنگریزوں نے کلیوں کا روپ دھار لیا اور چٹان کی پھلدار شاخیں زمین کے شانوں پر لہرانے لگیں۔ باغ، چمن، گلستاں، بوستاں، نخلستاں، ہریالی، کھیت، سبزہ، سایہ، پھل نباتاتی عجائبات کا حصہ ہیں۔ اپنی اصل سے ان کا تعلق بھی نہیں ٹوٹا اور یہ عالم جمادات کے قریب ترین ہی رہنے پر مجبور ہیں۔ چنانچہ پودوں کا سنگ، مٹی کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ عالمِ حیوانات مزید آگے بڑھنے کے لیے حرکت مقدر ٹھہری چنانچہ لغتِ حیوانی کا خمیر تشکیل دیا گیا۔ اب مادہ ، حسبِ ارادہ حرکت کے قابل تھا۔ ظہور کے اس مرتبے کا نام عالمِ حیوانات مقرر ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سنگلاخ شاخ پر دھرا ہوا چوبی سنگریزہ ننھی چڑیا میں تبدیل ہوا اور پھُر سے اڑ گیا۔ کچھ زمانے پہلے کا جامد پتھر ایک شاخ سے دوسری شاخ تک چہچہانے بھی لگا۔ خوبصورت پنکھڑیوں نے پھول کو الوداع کہا اور دلکش سکھیوں کی طرح ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ایک اور نیا لفظ تتلی خلق کیا۔ کچھ شاخوں نے زمین پر رینگنا شروع کر دیا تو کچھ خوبصورت درختوں نے چوکڑیاں بھرنی شروع کر دیں۔ کسی سرو نے چلنا شروع کر دیا تو کسی آکاس بیل نے ہفت پا کا روپ دھار لیا۔ پانی کے اندر، پانی کے باہر، ہوا، بادل، الغرض ہر جگہ شعور ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ چونکہ حیوانات عالم نباتات کے بنیادی جوہر رکھتے تھے اس لیے طلبِ غذا ہو یا کسبِ ہوا ، عالمِ نباتات سے مدام گہرا ربط رکھنا عالمِ حیوانات کی بنیادی ضرورت بن گیا۔ عالمِ خیالات مکانی حرکت پر قدرت حاصل کرنے کے بعد زمانی حرکت پر قدرت حاصل کرنا اہم تھا۔ ایک ایسے ذہن کی ضرورت تھی جو حسب منشاء ماضی، حال اور مستقبل میں جا سکے۔ زمانے کی کسی بھی جہت میں موجود، لاموجود اشیاء کا تصور کر سکے خواہ وہ گزشتہ سے ہوں یا آئندہ سے ہوں۔ خواہ ان کا سچ میں وجود ہو یا صرف ناممکن وہم۔ چنانچہ شکل انسانی کا ظہور ہوا۔ انسان آنکھیں کھول کر حیوانوں کی طرح بصری صلاحیت سے استفادہ بھی کر سکتا تھا لیکن اس کی اصلی بصارت اس کے وجود کے کسی اور پہلو میں نہاں تھی۔ ایسی بصارت جوآنکھیں بند کرنے پر بھی زائل نہیں ہوتی تھی۔ یہ آنکھیں بند کر کے یادِماضی پر مغموم و مسرور ہو سکتا تھا یا مستقبل کی بہتر زندگی کی امید کر سکتا تھا۔ اپنے ذھن میں موجود اشیاء کے ٹکڑوں کو جوڑ کر نئی چیز کا نقشہ ترتیب دے سکتا تھا۔ عالمِ جذبات اس تدریجی ارتقاء کے بعد اب یہ سانچہ اس قابل ہو گیا تھا کہ مقامِ ظہورِشعورِ معلی کے مراحل تک رسائی رکھ سکے۔ اس میں روح، جسم، نشوونما، ذہن، سبھی کچھ موجود تھے۔ اب ایک بظاہر کامل وجود تیار تھا۔ لیکن۔۔۔ ایک اہم سوال ابھی بھی درپیش تھا۔ حرکت کی قدرت ہونے کے باوجود حرکت کیوں کی جائے۔ زمانی وسعتوں کو پھلانگنے کے لیے ذہنی تصور کا استعمال کیوں کیا جائے اور اگر استعمال کیا بھی جائے تو اپنی اور دیگر افراد کی ترقی کے لیے ہی کیوں کیا جائے۔ چنانچہ یہ شاندار مگر بے آرزووجود صرف منظوم کُل پُرزوں کی مانند تھا۔ اسے کسی قوۂ محرکہ کی ضرورت تھی۔ ایک ایسے جوش کی جو اسے اندر سے حرکت اور ترقی پر مجبور کر دے۔ ازلی شعور نے لامتناہی حکمت کے تحت اپنے وجود کا ایک ٹکڑا بنام آرزو اس کے قلبِ ظریف کے وسط میں پھونک دیا۔ لامحدود کے محدود جگہ میں قید ہونے سے پھیلاؤ کا لامحدود دباؤ تخلیق ہوا۔ شاید اسی لیے جسم انسانی کو قفس عنصری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عادی مجرموں کو زندان ، آنگن معلوم ہوتا ہے اس لیے زندگی سے رہائی پانے کے تصور سے ہی خوف آتا ہے مگر ’’آن جہانی‘‘ افراد کے لیے موت ’’أحلی من العسل‘‘ ہی ہوتی ہے۔ وہ خودکشی کی کوشش تو نہیں کرتے کہ یہ لامتناہی حکمت کی حکم عدولی ہے مگر جب ان کا وقت آ جاتا ہے تو ایسی شان اور خوشی سے جاتے ہیں جیسے عمر قید سے رہائی مل گئی ہو۔ موت بھی قیسؔ سُود مند رہی یادِ جاناں سے جان چھُوٹ گئی آرزو کے جوالا مکھی اور طوفانی امنگوں کی بے کلی سے دل کی کلی جوشِ غروراور با حوصلہ سرور سے لبریز ہو گئی۔ یوں شعور انسانی جذباتی امواج کے بے پناہ بہاؤ کے تحت ازلی شعوری فانی دنیا میں جذب و سرمستی کی کیفیت میں تلاش خودی میں جت گیا۔ حسبِ ضرورت نئے الفاظ تخلیق کرنے کے لیے اس کی رگ رگ میں سرخ روشنائی بھر دی گئی۔ روزانہ ایک لاکھ مرتبہ تڑپنا اس کی لوحِ قلب پر نوشتہ تقدیر ہوا اگرچہ سادہ لوح افراد اسے دھڑکنا ہی کہتے رہے۔ صرف جذبات ہی وہ ایندھن ہیں جو کائنات وجود کورواں دواں رکھتے ہیں۔ جذبات اس دنیا کی سب سے بڑی تحریکی قوت ہیں۔ پوری دنیا کو دراصل جذبات ہی چلا رہے ہیں۔ پہلا اور آخری فیصلہ ہمیشہ جذبات کا ہی ہوتا ہے۔ عقل صرف دل کے حکم پر لبیک کہنے پر مجبور ہے۔ اور دل جو کچھ ٹھان لے اس کے حصول کے لیے تمام ذرائع بروئے کار لانے پر مجبور ہے۔ ماں کی شیر خوار بچے کی پیاس کے لیے دو پہاڑیوں کے درمیان سعی ہویا میدان جنگ میں قریبی دوستوں کی جان بچانے کے لیے یا وطن کی خاطر بارودی سرنگ پر لیٹ جانا، باپ کا تلاش معاش میں پردیس کے زہرآلود ماحول میں ہر کام کر گزرنا ہو یاڈاکٹر کا مریض کی جان بچانے کی سر توڑ کوشش کرنا۔ سرد راتوں میں کسی پیارے کے لیے برف کا پہاڑ چیرنا ہویا تپتے صحرا میں پابرہنہ جاں فرسائی، تسخیر ماہ اور آرزوئے خورشید ہو یا خلوت گاہ شب میں کسی ان دیکھے خالق سے سسکیوں بھرا راز و نیاز، درِ حسن پر سجدہ ہو تتلیوں کی لوحِ قزح کی دلفریبی۔ شاعری انہی جذبات کی تعجب آور مشقت سے شاعری جنم لیتی ہے۔ شاعری دہن سے گوش تک یا نظر سے دل تک پیغام کی منتقلی کا نام نہیں۔ شاعری اپنے جذبات کی چند مٹھیاں کسی با ظرف قلب میں بھر دینے کا نام ہے۔ حتی کہ سننے والا کہہ اٹھے۔ بعض شعروں سے تو ہم پھر سے جنم لیتے ہیں شاعری ذِہن کی خلقت کا فُسُوں ہے ، یوں ہے انسانوں پر قبضے کا رستہ دل آرزو گر ہے۔ عقل منصوبہ گر اور جسم عمل گر۔ استحصالی قوتیں تسخیر دل میں بے بس ہیں چنانچہ آرزو کو پیدا ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ ہمیں کسی انسان کے پاس کئی نسلوں تک کے لیے کافی مال دیکھ کر مزید کی کوشش کرنا ہوس لگتا ہے مگر دراصل وہ اپنے دل کی نشوونما اور ہل من مزید کے جذبے کے تحت مجبور ہے۔ دل صرف موت پر ہی ٹھہر سکتا ہے بصورت دیگر ہر دھڑکن نئی آرزو کو جنم تو دے گی ہی۔ استعماری قوتیں تسخیر جسم میں بھی بے بس ہیں کیونکہ صدیوں کے اندوختہ تجربات سے یہ بھی بخوبی علم ہو چکا کہ جسم کی تسخیر ناپائدار ہے اور انسان نظر آنے والے زندان سے رہائی کی ترکیبیں ہمیشہ سوچتا رہے گا۔ نوعِ انسانی پر دائمی غلبے کے لیے تسخیرِ عقل واحد راستہ ہے۔ قلبی لوحِ محفوظِ میں اترنے والی الہامی امنگیں جب حیطہء عقل سے گزرتی ہیں تو ’’سدھایا ہُوا‘‘ تعلیم یافتہ ذہن اپنی آموزش کی رو سے انہیں ناممکن قرار دے کر زندہ درگور کر دیتا ہے۔ شاعری بطور قوت ِ محرکہ شاعری جذبات کی نبض شناس ہے۔ شاعری یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ عقل و شعور کے قلعہء ناممکنات میں رخنہ ڈالے بغیر جذبات کو منتقل کر سکے اور دوسرا دل بھی انہی اثرات کو بعینہ محسوس کر سکے جو شعر گو کے دل میں پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے شاعری کائنات کی سب سے بڑی قوت محرکہ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ قومی ترانہ ہو یا جنگی ترانہ، بچے کی دعا ہو یا رجز مجاہد، غزل ہو یا رباعی شاعری ہر حال میں انسانی جذبات کی تشکیل، تعمیر، انتقال میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ شاعری شک و تردید کا شکار افراد کو چٹانوں جیسی مضبوطی عطا کرتی ہے تو سنگلاخ ذہنی قلعے میں قید افراد کی ذہنی دیواروں کو موم کی ناک بنانے میں مدد گار ہے۔ شاعری نہ صرف ایک شخص کے الہام شدہ جذبات دوسرے تک منتقل کرتی ہے بلکہ انسان کو اپنے اندر چھپے ہوئے خزانوں اور اندھے کنوؤں سے آشنا بھی کرتی ہے۔ ایسے جذبات جو انسان کے اندر موجزن تو ہوتے ہیں مگر انسان ان کے سرِ محفوظ سے واجبی آشنائی بھی نہیں رکھتا۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جنہیں شاعری سے شغف نہیں ہے۔ بعض میں تو یہ بدنصیبی اس عروج پر ہے کہ وہ شاعری سے عدم دلچسپی پر فخر کرتے ہیں جیسے ان کی علمی مہارت کا پہاڑ انہیں بچا لے گا۔ ٹھوس سائنسی حقائق اور منطق و ریاضیات میں مہارت کے کہیں بعد ’’کسی کسی کو‘‘ سمجھ آتا ہے کہ یہ سب تو اوزار ہیں ہتھیار کی مانند۔ مہلک ترین ہتھیار بھی اگر اپنے ہی خلاف استعمال ہو جائے تو اس کا کیا فائدہ ہے؟ اگر آپ کا کوئی قریبی ابھی تک قربِ شاعری سے محروم ہے تو اس کی مدد کیجیے قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے اور وہ زندگی کی بھول بھلیوں میں ’’ڈیجیٹلائزڈ‘‘ ہو جائے۔ یہ کتاب یہ کتاب شاعری کی دیگر کتابوں کے برعکس شعر ، شاعر اور سماج کا نوحہ ہے۔ یہ ان روئیوں کی نشاندہی کرتی ہے جن کی بدولت یہ معاشرہ شاعر اور شاعری کی راہ میں جان بوجھ کر یا انجانے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں تاکہ تبدیلی کا عمل روکا جا سکے۔ اس کے ہر شعر کو فقط شہزادقیسؔ کی شکایت نہیں بلکہ قبیلہ ء شاعراں کے ہر فرد کی شکایت سمجھا جائے۔ ادعائے شاعری مجھے شاعر ہونے کا دعوی نہیں ہے کیونکہ کسی کمپیوٹر پروگرامر اور مارکیٹنگ مینیجر کے لیے شوقِ شعر خوانی بھی تعجب آور ہے چہ جائیکہ ادعائے شاعری۔ چنانچہ مجھے دائمی طور پرشاعروں کی صف اول سے صفِ آخر تک کی ہر دوڑ سے باہر ہی سمجھا جائے۔ تاہم تحریری برتری کے اس عدم دعوی کے ساتھ ہی مجھے انفرادیت کا دعوی ضرور ہے کہ اس کائنات کا ہر ذرہ منفرد ہے۔ یکسانیت صرف سطحی نظر کی دین ہے۔ اچھا الہامی شعر، صاحبِ بیاض کے لیے بھی اتنا ہی شگفت آور ہوتا ہے جتنا اس کے مداحوں کے لیے۔ جبھی تو اہلِ خرد عالمِ تخلیق میں سجدہء شکر بھی بجا لاتے ہیں کہ ان کو بجا طور پر ادراک ہے کہ تخلیق گر کوئی اور ہے اور ان کا قلم صرف وسیلہ بن رہا ہے۔ رات کے پچھلے پہر ذات ِ خیال کی اتھاہ گہرائیوں سے نزولِ الہام کی امید کا نمودار ہونا اور پھر اسے ملفوظ صورت میں سفید کاغذ پر جنم دینے کے لیے نمودِ سحر تک کروٹیں بدلناشاعروں کے لیے ’’محبوب مشقت‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ۔ آپ کی رائے اور محبت ہی میرا کل اثاثہ ہے۔ ’’خوش‘‘ رہیے شہزاد قیسؔ 15 دسمبر 2012 . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** حسین باتوں کا کب اِنتقال ہوتا ہے **************************************** حسین باتوں کا کب اِنتقال ہوتا ہے جو شعر دِل سے لکھو لازَوال ہوتا ہے حقیقی شاعری حق الیقیں سے ہوتی ہے تلاشِ فکر سے بس قیل و قال ہوتا ہے ہمارے جیسوں کو دُنیا سمجھتی ہے شاعر جب اِہلِ شعر کا قحط الرِجال ہوتا ہے بنا عطا کے بڑے بھائی کچھ نہیں ملتا کرم کی شرط پہ کسبِ کمال ہوتا ہے جہانِ شعر کو صاحب خیالی مت جانو کہ کُن سے پہلے سبھی کچھ خیال ہوتا ہے صنم تراش سے کہہ دو خلوص کم کر دے خدا پرستوں کا جینا مُحال ہوتا ہے بضد ہیں حضرتِ واعظ تو ، توبہ کر لو قیسؔ کہ مرتے وَقت سبھی کچھ حلال ہوتا ہے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** اَپروچ :: اَدبی بونے اُچھل اُچھل کے قیسؔ **************************************** اَپروچ :: اَدبی بونے اُچھل اُچھل کے قیسؔ میرے پاؤں پہ وار کرتے ہیں #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** ناقدوں کی بھیڑ نے جانا مجھے جانے کے بعد **************************************** ناقدوں کی بھیڑ نے جانا مجھے جانے کے بعد عقل کے اَندھوں نے پہچانا مجھے جانے کے بعد شاعروں کو عہد میں تقسیم جس نے بھی کیا شاعرِ ہر عہد گردانا مجھے جانے کے بعد جب تلک موجود تھا یہ سنگ دِل منکر رہے خود پرستوں نے خدا مانا مجھے جانے کے بعد کتنی غزلیں اَن کہی اِن کی بدولت رِہ گئیں چاہتے ہیں اَب جو جانانہ مجھے جانے کے بعد میرے مصرعوں پر کتابیں لکھنے والے دوستو چھوڑ دو اِس دَرجہ دہُرانا مجھے جانے کے بعد میں خدائے لفظ تھا ، تخلیق کا عرفان تھا بس کرو یہ سب کو بتلانا مجھے جانے کے بعد قیسؔ اَدبی حلقے ہیں تمجید میں کوفہ سرشت چاہتے ہیں دِل میں دَفنانا مجھے جانے کے بعد #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** میری مٹی یہ جب اُڑا دیں گے **************************************** میری مٹی یہ جب اُڑا دیں گے تب مجھے عرش پر بٹھا دیں گے جیتے جی یہ مقام کیا دیں گے مقبرہ اُونچا سا بنا دیں گے سر پہ آسانی سے چڑھیں گے مرے ٹھوڑی تک مٹی میں دبا دیں گے اِن کو گر نیند سے جگایا تو جان سے مار کر جلا دیں گے میرے قد کی صلیب ہے جو سہی بس یہی سوچ کر سزا دیں گے شعر سب اِن کے قد سے اُونچے ہیں یہ بھی سچے ہیں داد کیا دیں گے شاعری جزوی اَز رسالت است قیسؔ بس اِس لیے دُعا دیں گے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** معبود خود اِلہام میں ہمراز ہُوا تھا **************************************** معبود خود اِلہام میں ہمراز ہُوا تھا جب پہلا بشر مائلِ پرواز ہُوا تھا نقّاد اَپنے شُغل پہ اِترائیں کیوں نہ قیسؔ اِبلیس سے اِس کام کا آغاز ہُوا تھا #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** تقصیر ہے بس اِتنی سی مجھ سے اَدیب کی **************************************** تقصیر ہے بس اِتنی سی مجھ سے اَدیب کی مردہ پرست قوم میں زِندہ ہُوں میں اَبھی #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** بات کب آج شعر شار کی ہے **************************************** بات کب آج شعر شار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے آج کے آج ہی بنیں شاعر پیشکش اَپنے کاروبار کی ہے ’’ ٹرن کی ‘‘ سسٹموں کا دور ہے یہ کچھ کمی ہے تو اِشتہار کی ہے پیشہ وَر ہیں سو مل کے لکھی کتاب اِک غزل میری ، اِک فگار کی ہے بوڑھے لوہار کو بتائے کوئی ضرب مہنگی فقط سنار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** دَھندہ کب ہے یہ اَدبی دَفتر ہے **************************************** دَھندہ کب ہے یہ اَدبی دَفتر ہے بھاؤ اَشعار کا مقرر ہے صرف آزاد نظم لکھنے کا بیس لفظوں کا ایک ڈالر ہے فی غزل پندرہ پر میں لا دُوں گا ریٹ ویسے تو کافی اُوپر ہے پیشہ وَر لوگوں کو ہی لکھنے دیں آپ خود نہ لکھیں تو بہتر ہے ایک نو کی بھی چل رہی ہے کتاب اَپنی ریشو تو ایک چار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** آپ باہر کمائی کرتے ہیں **************************************** آپ باہر کمائی کرتے ہیں اور اِتنی رَقم سے ڈَرتے ہیں ؟ آپ کے ہاں لکھاری بننے کو لوگ جی جان سے گزرتے ہیں روکنے والے سارے حاسد ہیں اُن کی باتوں پہ کان دَھرتے ہیں ؟ لوگ کیسینو بھی تو جاتے ہیں ڈُوبنے والے ہی اُبھرتے ہیں ہم کو معلوم ہے کہ آپ کے ہاں ایک روٹی بھی دو دُلار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** ڈُھونڈ کر اَچھی غزلیں لا دیں گے **************************************** ڈُھونڈ کر اَچھی غزلیں لا دیں گے چھپنے سے پہلے بھی پڑھا دیں گے سر وَرَق ڈھیر سارے رَکھے ہیں جو کہیں گے وُہی لگا دیں گے اِک فلیپ آپ کو میں لکھ دُوں گا دُوسرا ، وُہ میاں بنا دیں گے آپ کا قد نمایاں کرنے کو اِک غزل بانس پر چڑھا دیں گے جس کا جی چاہے اَب ہو ’’ اِہلِ کتاب ‘‘ بات کب جبر و اِختیار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** موٹا کاغذ نظر جکڑتا ہے **************************************** موٹا کاغذ نظر جکڑتا ہے دھاگہ جاپانی کم اُکھڑتا ہے رَنگ اِس کے کرنسی والے ہیں یہ ’’ پرنٹر ‘‘ جبھی اَکڑتا ہے جلد ہو اَعلیٰ ، گرد پوش نفیس قاری تب ہاتھ میں پکڑتا ہے ایک سی ڈی بھی ٹھونک دیں گے ساتھ ٹوٹی بھی ہو تو رُعب پڑتا ہے قصہ ہے آپ کی یہ شہرت کا داستاں میرے روزگار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** بُک کی تقریبِ رُونمائی بھی **************************************** بُک کی تقریبِ رُونمائی بھی ’’ پانچ تارے ‘‘ میں بُک کرا لیں گے شعر کو سُر کا دَھکا دینے کو دو گوّئیے نما بلا لیں گے اِستری کر کے کچھ لفافے بھی مختلف رَقموں کے بنا لیں گے اَدبی گوشوں کے سربراہوں کی گاڑیاں بھیج کر دُعا لیں گے اَدبی تنظیموں کی تو اَب حالت ایک بیمار سو اَنار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** شاعروں کی ہے ، شاعرات کی ہے **************************************** شاعروں کی ہے ، شاعرات کی ہے دَعوتِ عام لحمیات کی ہے ’’ سلجھے چرغوں ‘‘ سے کم چلے گا نہیں چونکہ تقریب اَدبیات کی ہے چھوٹے قیمے کے سُرخ سیخ کباب ذائقہ بازی نصف رات کی ہے جھاگ دو طرح کی اُڑائیں گے مے کشی جان غزلیات کی ہے اب کہاں تیرِ نیم کش کا دور آج کل بات آر پار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** میرا اِک بھانجا بھی صحافی ہے **************************************** میرا اِک بھانجا بھی صحافی ہے فون ہی میرا اُس کو کافی ہے آپ کے منہ سے جو نکل جائے وُہ لکھے گا یہ مو شگافی ہے کس میں جرأت ہے خود سے کچھ چھاپے یہ لفافہ ہے وُہ لفافی ہے نامور لوگ لکھیں گے کالم اِس کا خرچہ مگر اِضافی ہے آپ کیا لکھتے ہیں ، نہیں لکھتے شاعری اَپنی ہے ، اُدھار کی ہے ؟ بات تو صرف دَس ہزار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** نام شام اَپنا خود اُٹھا لیجے **************************************** نام شام اَپنا خود اُٹھا لیجے خود کو خود کاندھے پر بٹھا لیجے گھر میں ، گیراج میں یا باہر ہی عالمی اَنجمن بنا لیجے میر و غالب وَغیرہ سے منسوب اُردُو ایوارڈ بھی چلا لیجے سر کے بل آنے کو ہیں راضی اَدیب بات جو مانے وُہ بلا لیجے اِک ٹکٹ ، چند نوٹ ہیں لازِم یا طلب بسترے کی ، کار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** اُردُو اُستادوں کی جو حالت ہے **************************************** اُردُو اُستادوں کی جو حالت ہے آپ اُنہیں جو بھی دیں غنیمت ہے اُردو ایم فل کا اِک مقالہ بھی آج کل سب سے سستی شہرت ہے خود پہ لکھا مقالہ چھپوا کر بانٹنے میں عجیب لذت ہے آپ اور والدِ گرامی کی تین تصویروں کی ضرورت ہے دو مقالے تو چاہیے ہوں گے داستاں ہی یہ اِعتبار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** ٹیڑھی اُنگلی سے گھی نکلتا ہے **************************************** ٹیڑھی اُنگلی سے گھی نکلتا ہے بنجمن ہر جگہ پہ چلتا ہے ایک شاعر میں گُڑ بھی ڈالنا ہے وَرنہ وُہ آگ بھی اُگلتا ہے پانچ سو دیں گے اُن کو جن کا موڈ نوٹ کو دیکھ کر بدلتا ہے شاعر اِک دُوسرے سے جلتے ہیں دیپ سے جیسے دیپ جلتا ہے سلطنت مفت میں نہیں ملتی جنگ یہ اَدبی اِقتدار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے بات تو صرف دَس ہزار کی ہے #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** نئے خیال مصیبت میں ڈال دیتے ہیں **************************************** نئے خیال مصیبت میں ڈال دیتے ہیں مثال مانگو تو میری مثال دیتے ہیں کسی کسی سے وُہ کرتے ہیں معذرت دِل سے ہمارے جیسوں کو تو ہنس کے ٹال دیتے ہیں سفید مہرہ ہے بہتر سیاہ مہرے سے ہمیں یہ سوچنے کو پانچ سال دیتے ہیں جواب ڈُھونڈنے میں ذِہن کھلتا جاتا ہے عظیم شعر فقط کچھ سوال دیتے ہیں اَگر کوئی یہ پکارے کہ اَب کہاں شاعر مرے رَقیب بھی میری مثال دیتے ہیں یہاں فقیر بھی کاسے بغیر آتا ہے یہ لوگ کاسے پہ بھی ہاتھ ڈال دیتے ہیں تم ایک شعر کی چوری پہ چیخ اُٹھے قیسؔ یہ بچہ چھین کے ماں کو نکال دیتے ہیں #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** قریبی دوستوں کے راز ہیں برائے فروخت **************************************** قریبی دوستوں کے راز ہیں برائے فروخت مرا قلم ، مرے اَلفاظ ہیں برائے فروخت کتابیں تول کے بیچی ہیں بھوک کے ہاتھوں سخن وَری کے سب اَنداز ہیں برائے فروخت لہو سے لکھے ہُوئے کچھ خطوط ، اِک تصویر وُہ دیپ جو میرے ہمراز ہیں برائے فروخت مہینہ باقی ہے اور جیب میں فقط اَلفاظ چمکتے لوگو ! دو اَبیاض ہیں برائے فروخت تم اَپنی کہہ کے غزل بزم میں سنا دینا جمالِ لیلیٰ کے سب ناز ہیں برائے فروخت خود اَپنی مرضی سے نیلام گھر سجایا ہے تمام تمغے ، سب اِعزاز ہیں برائے فروخت سنہری پیشکش کو قیسؔ کی غزل نہ سمجھ: ۔ ’’مرا قلم ، مرے اَلفاظ ہیں برائے فروخت‘‘۔ #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** لفظوں کی سلطنت کا انا اولیں امام **************************************** لفظوں کی سلطنت کا انا اولیں امام حرفوں پہ پھونکتا ہوں میں جادو مرا کلام #شہزادقیس . **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** ۔ اختتام ۔ مجموعہ کلام "شاعر" ۔ **************************************** ۔ اختتام ۔ مجموعہ کلام "شاعر" ۔ سدا خوش رہیے ۔ شہزادقیس **************************************** Table of Contents **************************************** **************************************** ((End Text)) **************************************** ******************************* Find Shahzad Qais on Social Media ******************************* YouTube Instagram Twitter FaceBook ******************************* میری تمام کتب ڈاؤن لوڈ کیجیے ******************************* تمام کتب ایک ذپ فائل کی صورت میں http://sqais.com/QaisAll.zip "لیلیٰ" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisLaila.pdf http://sqais.com/QaisLaila.html http://sqais.com/QaisLaila.txt "دِسمبر کے بعد بھی" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisDecember.pdf http://sqais.com/QaisDecember.html http://sqais.com/QaisDecember.txt "تتلیاں" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisTitliyan.pdf http://sqais.com/QaisTitliyan.html http://sqais.com/QaisTitliyan.txt "عید" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisEid.pdf http://sqais.com/QaisEid.html http://sqais.com/QaisEid.txt "غزل" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisGhazal.pdf http://sqais.com/QaisGhazal.html http://sqais.com/QaisGhazal.txt "عرفان" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisIrfan.pdf http://sqais.com/QaisIrfan.html http://sqais.com/QaisIrfan.txt "انقلاب" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisInqilab.pdf http://sqais.com/QaisInqilab.html http://sqais.com/QaisInqilab.txt "وُہ اِتنا دِلکش ہے" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisDilkash.pdf http://sqais.com/QaisDilkash.html http://sqais.com/QaisDilkash.txt "نمکیات" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisNamkiyaat.pdf http://sqais.com/QaisNamkiyaat.html http://sqais.com/QaisNamkiyaat.txt "نقشِ ہفتم" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisNaqsh.pdf http://sqais.com/QaisNaqsh.html http://sqais.com/QaisNaqsh.txt "اِلہام" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisIlhaam.pdf http://sqais.com/QaisIlhaam.html http://sqais.com/QaisIlhaam.txt "شاعر" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisShayer.pdf http://sqais.com/QaisShayer.html http://sqais.com/QaisShayer.txt "بیت بازی" از "شہزادقیس" http://sqais.com/QaisBait.pdf http://sqais.com/QaisBait.html http://sqais.com/QaisBait.txt ********************** آپ کو اس متن کی اشاعت کی اجازت ہے ********************** آپ ان تخلیقات کو اپنے ویب سائٹ، بلاگ، فیس بک، ٹوئٹر، سوشل میڈیا اکاؤنٹس، اخبار، کتاب، ڈائجسٹ وغیرہ میں شائع کر سکتے ہیں بشرطیکہ اس میں ترمیم نہ کریں، شہزادقیس کا نام بطور مصنف درج کریں اور اس تخلیق کی اشاعت غیر تجارتی مقاصد کے لیے ہو یہ تخلیقات کریٹو کامنز لائسنس کے تحت شائع کی گئی ہیں جس میں اس تخلیق سے ماخوذ کام کی نشر و اشاعت کی اجازت نہیں ہے۔۔ مزید تفصیلات اس لنک پر ملاحظہ فرمائیے https://creativecommons.org/licenses/by-nc-nd/4.0/legalcode کسی اور طرح کی اشاعت کے لیے Info@SQais.com پر رابطہ فرمائیے۔